Aaj News

اتوار, مئ 19, 2024  
10 Dhul-Qadah 1445  

ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی روک دی گئی

شائع 04 اپريل 2020 09:53am

حکومتِ سندھ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں ملوث مبینہ ملزمان کی رہائی کو روک دیا۔ واضح رہے کہ جمعرات کے روز سندھ ہائی کورٹ نے چاروں افراد کو ڈینیئل پرل کیس میں بری الزمہ قرار دیا تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹ پریس کی جانب سے جاری اطلاعات کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے چاروں افراد کو نقص عامہ کے قانون ایم پی او 1960 سیکشن 3 (1) کے تحت مزید 3 ماہ حراست میں رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ملزمان میں احمد عمر شیخ، فہد نسیم احمد، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل شامل ہیں۔

سینٹرل جیل کراچی کے سپریٹنڈنٹ حسن سیٹھو کا کہنا ہے کہ انہیں سندھ حکومت کی جانب سے ہدایت ملی ہے کہ عمر شیخ جیسے فرد کو رہا کرنا مفاد عامہ کیلئے خطرناک ہوگا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ میں عمر شیخ کی سزائے موت کو بحال کرنے کیلئے اپیل کی گئی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق سندھ حکومت نے ڈینیئل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے قبل جمعہ 3 اپریل کو امریکا نے سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ”دہشت گردی کے متاثرین کے لیے توہین آمیز” قرار دیا تھا۔ جمعہ 3 اپریل کو اپنی ٹوئٹ میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکا ڈینیئل پرل کو نہیں بھولے گا۔

ڈینیئل پرل کیس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کیس کے فیصلے کی ٹائمنگ پر تعجب ہے، اس ضمن میں اپیل کا حق موجود ہے۔ اپیل کیلئے اعلیٰ فورم پر اپیل کی جا سکتی ہے۔

وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجداری مقدمات کے تناظر میں اگرچہ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ معاملہ سندھ حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ڈینیئل پرل کیس میں عدالت عالیہ سندھ کے حالیہ فیصلے کے خلاف اپیل آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی، اس معاملے میں سندھ حکومت کو بہترین وسائل بروئے کار لانے کا کہا گیا ہے۔

امریکی جدیرے وال اسٹریٹ جنرل کے پاکستان میں نمائندہ خصوصی ڈینئل پرل کو اس وقت اغواء کیا گیا تھا جب وہ اپنے جریدے کیلئے اسلامی انتہا پسندی کے موضوع پر رپورٹ کی تیاری اور تحقیق کر رہے تھے۔ ان کے اغواء کے کچھ عرصے بعد کراچی میں تعینات امریکی سفارتی اہل کاروں کو ایک ویڈیو موصول ہوئی تھی جس میں نامعلوم افراد کو ڈینیئل پرل کا قتل کرتے دکھایا گیا تھا۔

بعد ازاں ملزمان کی نشاندہی کے بعد ان کی لاش مئی سال 2002 میں ایک بوسیدہ قبر سے برآمد کی گئی تھی۔

ڈینیئل پرل کی قتل سے قبل منظر عام پر آنے والی ویڈیو کے فرانسک ٹیسٹ کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ القاعدہ کے اس وقت کے نمبر3 رہنما خالد شیخ محمد نے ہی امریکی صحافی کا سر قلم کیا تھا۔ فرانسک رپورٹ کے مطابق خالد شیخ کے موجودگی کی تصدیق کیلئے اس کے ہاتھ کی تصاویر اور ڈینیئل پرل کے قتل کی ویڈیو میں دکھائے جانے والے ہاتھ کا مشاہداتی موازنہ کیا گیا تھا۔

خالد شیخ محمد خلیجِ گوانتانامو کی امریکی جیل میں قید ہیں۔ انہیں 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر کیے گئے دہشت گرد حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں سال 2003 میں پاکستان کے شہر راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خالد شیخ محمد کو سی آئی اے اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے مشترکہ آپریشن کے بعد گرفتار کیا۔

پینٹاگون کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق خالد شیخ محمد نے اپنے بیان میں 11/9 کے حملوں، ڈینیل پرل قتل، جوتے میں بارودی مواد چھپا کر مسافر بردار طیارہ اڑانے کی کوشش، انڈونیشیا میں بالی نائٹ کلب بم حملوں کا بھی اعتراف کیا۔ سال 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر بم حملے کے علاوہ متعدد ناکام حملوں اور دیگر کئی جرائم کا بھی اعتراف کیا۔